روحانی منزل مری میں وہ پراسرار عجائبات اور حقائق جو اچانک افشاں ہوئےاور مخلوقات کی امانت ان تک پہنچائی جارہی ہے۔
(گزشتہ سے پیوستہ)
لیکن اک احساس ضرور تھا کہ میں نے اس بحران سے نکلنا ہے اور اس بحران سے نکل کر ملک و قوم کیلئے بھی کچھ کرنا اور لوگوں کے قرض بھی واپس دینے ہیں اور اپنے گھر کو پھر سے بسانا ہے‘ کچھ تین چار دنوں کے بعد میرے اندر ایسے روحانی منزل مری کی بے تابی سے طلب پیدا ہوئی اور روحانی منزل کا ایک بس انقلاب آگیا میرا جی چاہے میں سب کچھ چھوڑ کر روحانی منزل جاکر بیٹھ جاؤں‘ پھر خیال آئے خرچہ کہاں سے لوں گا‘ کچھ نہ کچھ نوکری لگی ہے اپنا گزارا تو کررہا ہوں‘ آخر جمعہ کا دن آیا تو میں نے اس سے پہلے اپنے دوست کو کہنا شروع کردیا کہ’’ روحانی منزل‘‘ چلنا ہے اس نے تیکھی نظروں سے مجھے دیکھا۔ کہنے لگا: تمہیں وہاں سےکیا غرض ہے‘ تم تو جب وہاں تھےکہتے تھے واپس چلو۔ میں نےکہا: نہیں میرا اندر کہہ رہا کہ وہاں کچھ ملے گا‘ بس آخر وہ مجھے وہاں لے گیا‘ روحانی منزل مری میں جاتے ہی مجھے احساس ہوا جیسے ماں کی گود‘ ماں کی چھاؤں میں آگیا ہوں‘ بچھڑا ہوا بچہ مامتا کو تلاش کرتا ہے ماں ماں پکارتا ہے میں اسی طرح بچھڑا ہوا کسی سہارا اور یقین میں آگیا۔ مجھے صلوٰۃ التسبیح کا تیسرا کلمہ نہیں آتا تھا میں نے اس(دوست) سے سیکھ لیا‘ میں نے صلوٰۃ التسبیح پڑھی‘ میری آنکھوں سےا ٓنسو نہیں تھمتے تھے‘ میرا اندر تڑپ رہا تھا‘ میں نے اس دن تین بار صلوٰۃ التسبیح پڑھی اس کے علاوہ یَافَتَّاحُ تڑپ تڑپ کر مچل مچل کر پڑھ رہا تھا‘ اندر سے ایک آواز آرہی تھی ایک ایسی خیر کی جگہ بڑی دیر سے پہنچا جہاں دنیا بہت فیض پاچکی اور پائے گی ۔ جہاں سے انسانیت کو بہت نفع ملے گا‘ جہاں مسائل حل ہوئے ہیں اور ہوں گے اور مشکلات ٹلیں گی‘ جہاں دکھ درد دور ہوئے ہیں اور جہاں جادو کی کاٹ کا اصل محور ہے۔
تو بندشوں میں جھکڑا ہوا ہے ‘ تیرے راستے بند ہیں‘ تجھے منزل بہت دور نظر آتی ہے‘ آج احساس ہوا کہ تجھے منزل ملی ہے تجھے راستے ملے ہیں ‘میرے اندر کچھ آوازیں تھیں جو اٹھ رہی تھیں اور باتیں تھیں جوآرہی تھیں ‘دل تھا کہ کہہ رہا تھا کہ بس مجھے وہ منزل مل گئی ہےجس کی مجھے زندگی بھر سے تلاش تھی۔
پھر میں نے مسلسل وہاں جانا شروع کردیا‘ کبھی کوئی ایک فرد ہوتا کبھی کوئی بھی نہیں ہوتا تھا اور میں وہاں بیٹھا رہتا کیونکہ وہاں کھانا مہنگا تھا‘ میں یہی سے کوئی چیز کھانا وغیرہ باندھ لیتا تھا‘ وہیں کھاتا اور شام کو واپس چلا آتا جو شخص مجھے لے گیا‘ وہ بہت عرصہ سے جارہا تھا‘ کچھ ہفتے ہوئے مجھے نظر نہ آیا ادھر ادھر پتہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنا کام چھوڑ گیا‘ کوئی سوا سال کے بعد ایک دفعہ مجھے ملا تو میں حیران ہوگیا‘میں ایک مرتبہ بازار میں اپنا کام اور نوکری ختم کرکےجارہا تھا ‘ایک گاڑی میرے قریب آکر رکی ‘مجھے آواز دے کر کہنے لگے: آجا ؤ ‘ گاڑی میں بیٹھو‘میں نے اس کو پہچان لیا‘ میں نے جھجکتے ہوئےکہا: نہیں‘۔ وہ بولا: آکر بیٹھ جاؤ‘ میں نے کہا: ڈرائیور کی نوکری کرلی ہے‘ کہنے لگا: پاگل بس بیٹھ جا‘ یہ گاڑی بھی میری ہے‘ آتجھے اپنا گھر دکھاتا ہوں پھر وہ مجھے اسلام آباد کے بہترین بلاک میں اپنے گھر لے گیا‘ ملازم نے گیٹ کھولا۔ ہم بیٹھے میں پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا‘ یہ وہی ہے جس کے پاس کپڑے نہیں تھے‘ جوتا نہیں تھا‘ کھانا نہیں تھا‘ کبھی کبھی مجھ سے دس روپے ادھار بھی لے لیتاتھا اور کبھی میں بھی اس سے ادھارلے لیتا تھا پھر اس نے اپنے رنگے جانے اور کمال پانے کے مجھے واقعات سنانا شروع کیے‘ کس طرح مجھے روحانی منزل کا بھاگ لگا‘ فیض ملا اور نفع ملا۔ کس طرح روحانی منزل سے مجھے برکات ملیں اور کس طرح قدرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں رزق حلال کا ایسا ذریعہ میرے ہاتھ آیا حالانکہ رزق حرام کے کئی ذرائع آئے میں نے چھوڑ دیا ‘میں نے مولا سے ایک بات کہ یااللہ صلوٰۃ التسبیح اور یَافَتَّاحُ کا نتیجہ ہمیشہ رزق حلال میں ہوتا ہے‘ میں نے حرام راہوں کو چھوڑا ہے اور ہمیشہ کیلئے چھوڑا ہے‘ مجھ سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں اور میں ان غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتا‘ بس پھر قدرت نے میرے ساتھ وہ کرم کیا اور وہ شفقت اور نوازش کی خود میں بھی حیران ہوں اور میری عقل بھی دنگ ہے اس کی اس حالت کو دیکھ کر میرا یقین اور بڑھ گیا لیکن ایک احساس تھا کہاے اللہ! مجھے نیک بندہ بنا اورمجھ سےکچھ گناہ اوربرائیاں اور چھڑوا پھر تیرا جی چاہے تو مجھے دولت‘ رزق دے‘ ورنہ مولا دولت‘ رزق اس دنیا میں مل گیا مگر تو اور تیرے حبیب ﷺکا در نہ ملا تو میں ناکام انسان ہوں! میں نے روحانی منزل اورذوق شوق سے جانا شروع کردیا‘ پھر میں نے باقاعدہ نماز شروع کردی ‘پھر عالم یہ ہوگیا کہ رات کو کوئی ایسا وقت ہوتا کوئی طاقت جیسے مجھے اٹھا دیتی‘ میں نے تہجد لفظ سنا تھا لیکن تہجد پڑھنے کا علم ہی نہیں تھا۔ ٹوٹی پھوٹی جیسے بھی تھی پڑھی‘ پھر لوگوں سے پوچھا کہ تہجد کیسے پڑھتی ہے‘ انہوں نے طریقہ بتایا‘پھوٹ پھوٹ کر رونا ‘ مجھے آج نصیب ہوا‘ مالک دکان نے میرے حالات بدلتے دیکھ کر‘ مجھے اپنے مزید قریب کیا‘ اس کا کاروبار بہت بڑا تھا لیکن اس نے مجھے صرف چائے‘ بوتل‘ صفائی جھاڑو پر رکھا ہوا تھا چونکہ میں خود بہت بڑا بزنس مین تھا‘ ایک دفعہ اس نے مجھے اپنے قریب بٹھایا اور کہنے لگےاپنے کوئی حالات سناؤ‘ میں نے اسے اپنے حالات سنانے شروع کیے اور وہ حیران ہوا پھر میں نے اپنے دوست بتائے‘ ان میں سےا یک دوست ایسا تھا جو اس کا بھی جاننے والا تھا‘ (باقی صفحہ نمبر54 پر)
(بقیہ:فاقوں پر مجبور کروڑ پتی اور روحانی منزل مری کا کرشمہ )
اس نے اسی وقت اس کو فون ملایا کہ فلاں شخص کو جانتے ہو‘ اس نے کہا اچھی طرح جانتا ہوں لیکن وہ اس وقت فرار ہے کئی لوگوں کے پیسے کھائے ہوئے ہیں‘ یہ چیز میں نے اپنے مالک کو پہلے ہی بتائی ہوئی تھی کہ میں حالات کا مارا ہوا ہوں۔اللہ کا ایک خاص کرم ہوا کہ جو حالات میں نے بتائے تھے وہی اس دوست نے بتائے۔ مالک دکان نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوست میرا نوکر ہے اس سے حالات سنتا رہا‘ پھر اس سے سامنے بنچ سے اٹھا کر کہنے لگا کرسی پر بیٹھو اور کہا اتنے عرصہ سے میں نے تمہاری دیانت داری دیکھی ہے‘ تمہارے کام کا سلیقہ دیکھا ہے‘ آج کے بعد تم میرے منیجر ہو جب اس نے یہ لفظ منیجر کہا اچانک روحانی منزل کا وہ نیچے کا حصہ وہ تنہائی اور پھر وہ صلوٰۃ التسبیح اور یَافَتَّاحُ کا پڑھنا وہ سب کچھ سامنے آیا‘ میرے آنسو گرپڑے اور میں اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور میں نے اس سے کہا آپ نے مجھے ایک پل میں جتنی عزت اور وقار دیا ہے میں وعدہ کرتا ہوں آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا پھر اعتماد بڑھتا گیا‘ اس کا سارا کیش میرے پاس ہوتا تھا اس نے کئی بار مجھے آزمایا لیکن روحانی منزل کا فیض مجھے ہر دفعہ کامیاب کراتا چلا گیا اور میری دیانت بڑھتی چلی گئی۔ میرا جی چاہتا ہے روحانی منزل کے درو دیوار چوموں اور میں چومتا ہوں اور میں ادب سے جاتا ہوں ادب سے رہتا ہوں‘ ادب سے چلتا ہوں۔ میں وہاں جاکر انتظامات کا شکوہ نہیں کرتا‘ برملاکہتا ہوں اس در کا کتا ہوں‘ کتے کو تو گرا پڑا ٹکڑا مل جائے تو وہ راضی ہوتا ہے‘ مطمئن ہوتا ہے‘ نہ بھی ملے تو ہے تو کتا۔ پھر اس کے بعد قدرت نے میرے اوپر کیا فیض اور عنایات کی بارش کی‘ یہ انوکھی کہانی ہے جو اس نے مجھے سنائی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں